کیا اسرائیل کو تسلیم کرنے کی راہ ہموار ہو رہی ہے؟ مولانا کا بیان اور خواجہ آصف کی گونج
تحریر رانا علی فیصل
گزشتہ روز مولانا فضل الرحمان نے ایک جلسے میں ابراہم اکارڈ پر بات کی، جس کے اگلے ہی دن وزیر دفاع خواجہ آصف نے بیان دے دیا کہ:
> "جب ایک آزاد فلسطینی ریاست قائم ہو جائے، تو اسرائیل کو تسلیم کرنے پر غور کیا جا سکتا ہے۔"
یہ محض اتفاق ہے؟ یا باقاعدہ منصوبہ بندی؟
مولانا کا سرکاری طور پر نظر بند ہونا، اور اسرائیل سے متعلق بیانیے پر اچانک سختی، یہ بتانے کے لیے کافی ہے کہ حکومت اب اسرائیل سے تعلقات کے لیے رائے عامہ تیار کر رہی ہے۔
---
🔎 سوالات جو عوام کو سوچنے چاہییں:
کیا اب پاکستان بھی ابراہم اکارڈز میں شامل ہونے جا رہا ہے؟
مولانا جیسے مذہبی رہنماؤں کی زبان بند کیوں کی جا رہی ہے؟
اسرائیل کو تسلیم کرنا قائداعظم کے مؤقف سے غداری نہیں؟
> "مولانا فضل الرحمان جیسے رہنماؤں کو اب دوٹوک مؤقف اختیار کرنا ہو گا۔ بیان دینا ہو گا کہ:
’مجھے ایف سی، سیکیورٹی یا پروٹوکول نہیں چاہیے، میرا اللہ ہی میری حفاظت کرے گا۔ میرا مؤقف وہی ہے جو محمد علی جناح کا تھا، وہی ہے جو عمران خان کا ہے: جب تک فلسطینی عوام کو ان کا حق نہیں ملتا، اسرائیل سے تعلقات دھوکہ ہیں، امن نہیں۔‘"
> "یہ میری رائے ہے، غلط ہو سکتی ہے، مگر اس وقت جو کچھ ہو رہا ہے وہ خطرناک ہے۔
ہر وہ آواز جو اسرائیل کے خلاف اٹھتی ہے، بند کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔
مگر ہم وہ نسل ہیں جو فلسطین کے حق میں کھڑی ہے، اور کھڑی رہے گی۔"
تبصرے
ایک تبصرہ شائع کریں